Ticker

Recent 5

بنیادی حق یا ضرورت


 بچہ خب پیدا ہوتا ہے اسے کوہئ عقل سمجھ نہیں ہوتی. وہ غزا کے طور پر ماں کا دودھ دو سال تک پیتا ہے دو سال کے اندر چلنا سیکھتا ہے اور بولنے کی کوشش کرتا ہے بچہ اس وقت بولنا شروع کرتا ہے جب اس کے پاس 3سے4ہزار الفاظ کا مجموعہ ہوتا ہے اس وقت بچہ وہ کام کرتا ہے جن کاموں میں وہ دلچسپی رکھتا ہے یا وہ کام کر کے لطف اندوز ہوتا ہے۔ اس وقت اس کی نفسیات اور دلچسبی کو سمجھا جاہے تو اسکے مستقبل کا تعین کیا جا سکتا ہے۔مگر افسوس کے ساتھ یہ کھنا پڑ رہا ہے کے ماں باپ کے پڑھے لکھے ہونے کہ باوجود اس پر توجہ نہیں دی جاتی اس کو شروع سے ہی ڈاکٹر یا انجنیر بننے کیلے دباو ڈالا جاتا ہے۔ اور اسے شروع سے گاڑی بنگلہ اور پیسہ کمانے کی لالچ دی جاتی ہے۔جسکی وجہ سے بچہ زہنی دباو کا شکار ہو جاتا ہے۔وہ اپنی مرضی کی تعلیم حاصل نہیں کر سکتااور اپنی قابلیت کھو بھیٹتا ہے۔جب بچہ 18سال کی عمر میں پھنچتا ہے اس وقت وہ بالغ سمجھا جاتا ہے۔اسی لیے حکومت شناختی کارڈ جاری کرتی ہے۔ مطلب یہ ہے کے وہ عقل مندی اور زمہ داری کا اہل ہوتا ہے۔یہی عمر اسکی شادی کی ہوتی ہےاور یہ عمر کا ایک جذباتی مقام ہوتا ہے۔اس عمر میں انسان ذنہ اور دیگر براہیاہوں کا مرتکب ہو سکتا ہے۔پاکستان کے اندر لڑکے کی شادی اس وقت کروائی جاتی ہے جب لڑکا نوکری کرتا ہو۔ اسلام میں ہے کہ شادی دین اخلاق اور کردار دیکھ کر کروای جائے۔جسکی بڑی مثال حضرت علی◌ؓ اور حضرت فاطمہ‌ کی شادی ہے۔جب حضرت علی◌ؓ حضرت فاطمہ◌ؓ کا رشہ ہوا تو اس سے پہلے کچھ صحابہ حضور کے پاس گۓ تھے۔ آپ نے کوئ جواب نہیں دیا پھر کسی صحابہ کے کہنے پر حضرت علی◌ؓ خود آپ صلى الله عليه وسلم کے پاس تشر یف لے گےآپ صلى الله عليه وسلم نے آنےکی وجہ پوچھی تو حضرت علی◌ؓ نے ساری بات بتائ تو آپ◌ؑ نے کہا انشاء اللہ حضرت علی◌ؓ باہر آے تو صحابہ نے حضرت علی◌ؓ سے پوچھا کہ حضور صلى الله عليه وسلم نے کیا جواب دیا. حضرت علی نے کہا کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے صرف انشاء ﷲ کہا ہے۔ حضرت علی◌ؓ یہ سوچ کے پریشان ہو گۓ کہ اب رشتہ نہیں ہو گا ۔آپ صلى الله عليه وسلم گھر تشریف لائے اور حضرت فاطمہ◌ؓ کو ساری بات بتاہی۔جب حضرت فاطمہ◌ؓ نے ہاں میں جواب دیا تب آپ صلى الله عليه وسلم نے حضرت علی◌ؓ کو ہاں کی۔ آپ صلى الله عليه وسلم حضرت فاطمہ◌ؓ سے پوچھے بغیر حضرت علی◌ؓ کو ہاں کر سکتے تھےمگر آپ صلى الله عليه وسلم نے ایسا نہیں کیاجب کہ ﷲ نے پیغام بھیج دیا تھا کہ فاطمہ کا رشتہ حضرت علی◌ؓ کو ہی دینا ہے. مگر آپ صلى الله عليه وسلم نے حضرت فاطمہ◌ؓ کی رضا مندی حاصل کرنے کے بعد حضرت علی◌ؓ کو ہاں کی۔اس وقت حضرت علی◌ؓ کے پاس اپنا گھر بھی نہیں تھا کراۓ کے مکان میں رہ رے تھےاور حق مہر ادا کرنے کے لیے رقم بھی نہیں تھی۔ اس بات سے ثابت ہوتا ہے کے رشتہ داری لڑکا لڑکی کی رضامندی اور لڑکے کے دین اخلاق و کردار اور حلال کی کمائی کو دیکھ کر کیا جاہے۔میرے اس کالم کا مقصد یہ ہے کہ لڑکا اوا لڑکی کے مستقبل کا فیصلہ ان کو ہئ کرنے دینا چاہیے۔پاکستان کے اندر لڑکی کو بھیڑ بکری سمجھ جاتا ہے۔ جہاں دل آیا وھاں اٹھا کے دے دیا ۔ والدین کو یہ سوچنا چاہیے کہ لڑکی کے بھی خیالات جذبات اور احساسات ہوتے ہیں۔میری تمام والدین سے گزارش ہے کہ بچپن سے اپنے بچوں یا بچیوں کا رشتہ تہ نہ کریں۔ اسی وجہ سے کئ عورتیں بغیر شادی کے بھوڑی ہو کر مر جاتی ہیں۔ زبر دستی کی شادی بعد میں طلاق کا بعث بنتی ہے۔ معاشرے کی تباہئ کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے۔ پاکستان کے اندر اس بارے میں قانون سازی کرنی چایے ۔ قوم اور معاشرے کو اس تباہی سے بچانا ہمارا فرض ہے ۔           

               تحریر:محمد ابراھیم عباسی.

Post a Comment

0 Comments