Ticker

Recent 5

سقراط اور اسلام (حصہ دوم)


تحریر: محمد ابرہیم عباسی

اب اللہ بہتر جاننے والا ہے سقراط قوم کو آنے والے دین کی تیاری کروا رہا تھا یا پرانے دین میں پیدا ہونے والی خرابوں کو دور کر رہا تھا۔ مگر یہ بات تو یقینی ہے کہ وہ اپنے اس معاشرے میں برائیوں کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ اسے علم تھا کہ قوم کی تقدیر بدلنے اور بہتر معاشرے کے لیے ضروری ہے کہ نوجوان پڑھے لکھے ہوں۔ اسی وجہ سے اس نے اپنا علم اس وقت کے نوجوان میں منتقل کرنے کی کوشش کی۔ جس کے لیے وہ شہر کی گلیوں میں در بدر زلیل وخوار ہوا۔

سقراط کی سب سے بڑی خوبی یہی تھی کہ وہ اپنے اوپر مکمل یقین رکھتا تھا۔ اسے اپنے اوپر بھروسہ تھا کہ جو وہ کر رہا ہے یا سیکھا رہا ہے وہ سب سے بہتر ہے ۔ یہی وہ راستہ ہے جس میں بھلائی ہے۔ جسطرح اسلام میں (مفہوم) "اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ میری مرضی کے علاوہ کوئی کسی نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ ہی فائدہ، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو تفرقے میں مت پڑو"۔اسی طرح سقراط نے بھی اپنے تعلیمات میں کہا کہ "صرف خدا کی مرضی کو پورا کرو اور صرف وہ راستہ اختیار کرو جو اس کی رہنمائی کے تابع ہو"۔ 

ان دونوں جملوں یا تعلیمات سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ انسان کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ اس راستے پر چلے جو اللہ نے اس کے لیے منتخب کر رکھا ہے۔ 

سقراط نے اپنی زندگی میں بہت تکالیف برداشت کی ہیں۔ یہاں تک کے اس نے اپنی شکل وصورت کی وجہ سے بھی کئی جگہ رسوائی برداشت کی۔ اسکی بیوی کی وجہ سے بھی اسے رسوائی کا سامنا کرنا پڑا(جسکا زکر پچھلے مضمون میں کیا گیا ہے)۔برداشت پر اسکی بہت سی تعلیمات ہیں جن میں سے ایک میں یہاں بیان کرنا چاہوں گا کہ، "راحت اور تکلیف انسان کے پاس اکٹھی نہیں آتیں اگر کوئی کسی ایک کی جستجو کرے اور اسے حاصل کرے تو دوسری اسے لازماً مل کر رہتی ہے۔ ایک کے مل جانے پر دوسری خودبخود پیچھے آ جاتی ہے"۔ سقراط کے مطابق دکھ اور سکھ ایک وقت میں انسان کو نہیں مل سکتے۔ ایک وقت میں انسان یا تو سکھی ہو گا یا تو دکھی۔ یہ دونوں کیفیات ایک دوسرے کے روبرو ہیں۔ اگر ایک کیفیت موجود ہے تو یقینی بات ہے کہ دوسری کیفیت نے بھی آنا ہے۔ اسی طرح اسلام ہمیں اس بات کا درس دیتا ہے کہ مفہوم " کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے". اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے سب سے بڑا صلہ جو برداشت کا رکھا ہے وہ صلہ جنت کی صورت میں ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنے رب اور دین کی خاطر برداشت کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ "اور جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں ہم انہیں اپنی راہیں ضرور دکھا دیں گے یقیناً اللہ تعا لٰی نیکوکاروں کا ساتھی ہے" ۔ 

سقراط کی سب سے بڑی دشمن اس وقت کی اشرافیہ تھی۔ جو اس کے سخت خلاف تھی۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ سقراط حق سچ کی بات کرتا تھا۔ وہ شہر کی گلیوں میں جا کر عوام کو بتاتا تھا کہ آپ کے حقوق کیا ہیں۔ کیا ایسی بنیادی ضروریات ہیں جو حکومت نے آپ کو دینی ہوتی ہیں۔ اسی وجہ سے حکومت کو ڈر تھا کہ یہ شخص ہمارا اثر و رسوخ ختم کر سکتا ہے اور حکومت گرا سکتا ہے۔ اسی بنیاد پر سقراط نے کئی مشکلات کا سامنا کیا۔ اس نے حکومت کو آئینہ دیکھایا کہ وہ اپنے بنائے ہوئے قانون کی ہی قانون شکنی کرتی ہے۔ اس پر سقراط کا خیال تھا کہ جو لوگ قانون کو جانتے ہیں وہی قانون توڑتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو عام انسان کو گمراہ کرتے ہیں۔ اس پر سقراط نے کہا کہ " ایک قانون شکن شخص ہی بھولے بھالے لوگوں کو گمراہ کر سکتا ہے". بقول سقراط جو لوگ قانون کو نہیں جانے وہ معاشرے کے لیے نقصان دہ نہیں کیوں کہ وہ دوسرے لوگوں کو گمراہ کرنا نہیں جانتے۔ 

سقراط کے تعلیمات کا کا سلسلہ جاری تھا کہ اس کو گرفتار کیا گیا۔ پھر عام عوام کے سامنے جیوری کے سامنے پیش کیا گیا۔ یاد رہے اس وقت کی جیوری کئی درجن ارکان پر مشتمل ہوتی تھی۔ کئی دن گرفتار رہا اور عدالت نے اسے موت کی سزا دی۔ جس پر سقراط نے اس وقت کہا تم ظلم کر رہے ہو جب میں مر جاؤں گا تب آپ کو میری اہمیت کا اندازہ ہو گا۔ عدالت میں موجود کئی حامیوں نے زہر کا پیالہ پینے سے منع کیا مگر سقراط یہ کہ کر اپنی جان قربان کی کہ میں زہر کا پیالہ پی کر ذندہ رہوں گا پیالہ نہ پینا مجھے مار دے گا۔ یہ سقراط کی زبان سے نکلے ہوئے آخری الفاظ تھے۔ 

تو یوں فلسفے کے سنہرے دور کا خاتمہ ہوا ۔ مگر اس فلسفی کی تعلیمات میں اتنی طاقت تھی کہ اس نے افلاطون اور ارسطو جیسے فلسفی پیدا ہوئے۔

   

Post a Comment

0 Comments