Ticker

Recent 5

سقراط اور اسلام (حصہ اول)

 


تحریر:: محمد ابرہیم عباسی

 دنیا کے ہر خطے کو اللہ تعالیٰ نے عروج بخشا ہے۔ عروج بنیادی طور پر ان لوگوں کے ذریعے کسی بھی خطے کو ملتا تھا جو سیاسی، تعلیمی اور سیاسی نظام میں تبدیلیاں رونما کرتے تھے۔ یونان کو بھی اللہ تعالیٰ نے تین چار سو سال قبل مسیح عروج بخشا۔ جس میں بڑے سائنسدان، سیاسی رہنما، جنگجو اور فلسفی پیدا ہوئے ۔ جن کی وجہ سے یونان کو جانا جاتا ہے۔ سقراط بھی ان میں سے ایک تھا۔ جو تقریباً چار سو انہتر سال قبل مسیح یونان میں پیدا ہوا۔ جس ریاست میں سقراط پیدا ہوا وہ اس وقت کی ترقی یافتہ ریاست تھی۔ جس کے فلسفے اور حکمت و دانائی کی وجہ سے اسکے شہر و ملک کو دنیا آج بھی یاد کرتی ہے۔

  سقراط پیشے کے لحاظ سے سنگ تراش تھا۔ شکل و صورت اتنی اچھی نہیں تھی۔ ناک چپٹی تھی جس وجہ سے لوگ مینڈک کے منہ والا بول کر مذاک اوڑاتے تھے۔ لیکن اسے ان تشبہات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ اس کا نظریہ ہی یہ تھا کہ شکل و صورت کا خوبصورت ہونا اصل خوبصورتی نہیں۔ اصل خوبصورتی دل کا صاف اور خوبصورت ہونا ہے ۔ سقراط نے کچھ جنگوں میں بھی حصہ لیا۔ وہاں بھی وہ ایک بہادر اور کامیاب جنگجو ثابت ہوا۔

  سقراط کو اس وقت کا آذاد خیال شخص تصور کیا جاتا تھا۔ کیونکہ اس کا نظریہ جدید تھا زیادہ تر حقیقت پر مبنی تھا۔ وہ ایک خدا کو مانتا تھا ۔ کئی خداؤں کو ماننے سے انکار کرتا تھا۔ یہ وہ سب سے بڑی وجہ تھی جس وجہ سے اس وقت کی اشرافیہ سقراط کے خلاف ہوئی۔ سقراط گلی محلوں میں اپنی تبلیغ کا کام کرتا تھا۔ اس کے بہت شاگرد بھی رہے۔ افلاطون بھی اس کے شاگردوں میں سے ایک ہے۔ جس نے سقراط کے علم و نظریات کو قلمبند کیا۔ سقراط اور افلاطون کے کئی نظریات میں اختلاف بھی موجود ہے۔ یہ شائد اسی تربیت کا ہی نتیجہ ہے جو سقراط نے افلاطون کو دی۔ سقراط نے اس وقت ایسی نصیحتیں کی جو شائد آج بھی کارآمد ہیں اور اسلام بھی انہی کی تلقین کرتا ہے۔ 

  اسلام کا اہم سبق برداشت کرنا ہے ۔ اللّٰہ اور آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صبر و تحمل سے کام کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسی طرح سقراط بھی جو علم دیتا تھا اُس میں بھی بنیادی سبق برداشت کا ہی ہوتا تھا۔ سقراط کے اس فلسفے کے پیچھے بڑی دلچسپ کہانی ہے۔ سقراط کی بیوی بہت منہ پھٹ تھی جو ہر وقت لڑتی رہتی تھی۔ سقراط سے کسی نے پوچھا تم اس سے تنگ نہیں آتے ۔ تو اس پر سقراط نے جواب دیا نہیں کیونکہ اس کے اس رویے کی وجہ سے میں نے برداشت کرنا سیکھا ہے۔

  سقراط کہتا ہے جو خدا سے نہیں ڈراتا وہ سب سے ڈرتا ہے اور خدا سے ڈرتا ہے وہ کسی سے نہیں ڈراتا۔ اسلام میں بھی اللہ ان لوگوں کے لیے خوشخبری دیتا ہے کہ :ہم نے کہا تم سب یہاں سے چلے جاؤ ، جب کبھی تمہارے پاس میری ہدایت پہنچے تو اس کی تابعداری کرنے والوں پر کوئی خوف و غم نہیں : اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سقراط کو اس وقت علم تھا کہ اللہ ایک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو علم دیا تھا۔ سقراط کچھ وقت اکیلے بھی گزارتا تھا۔ اس دوران وہ اپنا منہ آسمان کی طرف کر کے ایک ٹانگ پر کھڑا ہوتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ مجھے دیوتا جو کام کرنے کا کہتے ہیں میں وہی کرتا ہوں۔ وہ اس بات پر زور دیتا تھا کہ اگر آپ نعمت چاہتے ہو تو اس کے تین اصول ہیں۔ شکر کثیر، عبادت لازم اور گناہ سے توبہ۔ اسلام بھی اسی نظریہ کو مانتا ہے۔ اسلام بھی ہمیں صبر و شکر کرنے عبادت ہم پر فرض ہے اور گناہ سے توبہ کا ہی کہتا ہے۔ اسی طرح اسلام ہمیں نفس کے خلاف جہاد کا کہتا ہے اور سب سے افضل جہاد بھی نفس سے جہاد ہے۔ سقراط کے مطابق ہمیں اپنے نفس کی حفاظت کرنی چاہیے اس میں سکون و راحت ہے۔ 

 سقراط کی ہر بات یا نظریہ سے اسلام متفق نہیں۔ بہت سے نظریات میں اختلاف پائے جاتے ہیں۔ لیکن بنیادی جو پہلو ہیں وہ اسلامی نظریات سے مشابہت رکھتے ہیں۔ سقراط کے نظریات سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اللہ اس قوم کو آزمائش سے گزار رہا تھا یا کسی بڑی تبدیلی کے لیے تیار کر رہا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں پہلے یا بعد میں اس علاقے میں کسی نہ کسی نبی کا نزول ہوا ہو گا۔ مکر سقراط کے نظریات ایک مجدد کی طرح ہیں جو مذہب میں پیدا بگاڑ کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اب اللہ بہتر جاننے والا ہے سقراط قوم کو آنے والے دین کی تیاری کروا رہا تھا یا پرانے دین میں پیدا خرابوں کو دور کر رہا تھا۔ (جاری ہے)

  

Post a Comment

0 Comments