Ticker

Recent 5

اقبال پارک واقع کا میڈیا ٹرائل


 تحریر محمد ابرہیم عباسی

چودہ اگست کے لاہور کے علامہ اقبال پارک میں ایک واقع پیش آتا ہے۔ جس میں کوئی چار سو لوگ ایک لڑکی کے ساتھ بد سلوکی کرتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں پاکستانی یعنی اسلامی معاشرتی نظام کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اس کے کچھ دن بعد مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔ لوگ گرفتار ہوتے ہیں۔  مبینہ طور پر متاثرہ لڑکی تفتیشی اداروں کو کارروائی سے روکتی ہے۔ ایسے کئی متنازع بیانات سامنے آتے ہیں جو کہانی کا رُخ ہی بدل دیتے ہیں۔ اب حقیقت میں کیا ہوا اللہ تعالیٰ بہتر جاننے والا ہے۔

 لیکن ان لوگوں نے اپنے موقف اور نظریہ کو پامال کر دیا جو کہتے تھے کہ ؛ پاکستان میں لبرازام کو نہیں آنے دیں گے۔ لبرل ازم کی حامی عورتیں نہیں  یہ آنٹیاں ہیں۔ یہی پاکستان کے معاشرتی نظام کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ یہ عزت کے قابل نہیں۔ یہ دین اسلام کو بدنامی کا باعث بنتی ہیں۔  انہوں نے ملک میں فحاشی پھیلائی ہے۔ ان کو ملک سے نکال دینا چاہیے یا سخت سزائیں دی جانی چاہییں۔ یاد رہے کچھ مرد بھی طبقے کا حصہ ہیں۔ جنہیں ماں بہن کی گالیاں دی گئیں۔ غدار کہا گیا۔ دلال اور بہت کچھ کہا گیا۔ مگر وہ پھر بھی اس معاشرے اور معاشرتی محافظوں  کے سامنے اسپات کی طرح ڈٹے رہے۔  مگر بد قسمتی سے ان کا موقف کچھ بے غیرتوں کی وجہ سے صحیح ثابت ہوا ہے۔ اللہ نہ کرے کہ مستقبل میں ہو۔

 یہی معاشرے کے محافظ  آج لاہور واقع کو کوریج دے کر فخر کر رہے ہیں۔ ان کی زبان و دماغ پر لاہور واقع سوار ہے۔  کیا وہ یہ بھول گئے کہ انہی واقعات کی بنا پر لبرل ازم کے حامی لوگ  پاکستان کو عورتوں کیلئے غیر محفوظ سمجھتے ہیں؟ پاکستان کو پوری دنیا میں بدنام کرتے ہیں۔ کیا اس  سے لبرازام کے نظریہ یا موقف کو تقویت نہیں ملے گی؟ آج آپ کی اداکارائیں اور سیاسی طاقتیں بھی پاکستان کو بدنام کر رہی ہیں۔ گلے پھاڑ پھاڑ کر کہا جا رہا ہے کے مردوں کو عوامی مقامات پر نہ جانے دیا جائے۔ وہ لوگ جنہیں ملک کی وجہ عزت ملی۔ اس عوام کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہوئے۔  ان کا کیا کرو گے؟ کیا ایسا سوچا ہے؟  اپنی مقبولیت کے لیے ضروری نہیں کے ملک کو بدنام کر دیا جائے۔ 

البتہ اقبال پارک میں جو بھی ہوا غلط ہوا واقع میں ملوث افراد کو سخت سزا دی جانی چاہیے۔ پاکستان جیسے ملک میں ایسے واقعات تکلیف دہ ہیں۔  لیکن اس پر جو میڈیا نے ملک کے معاشرتی نظام کو ننگا کیا ہے وہ ناقابلِ برداشت اور قابلِ مذمت ہے۔ اس معاملے کے ملک اور معاشرے پر پڑنے والے منفی اثرات کا بھی سوچنا چاہیے تھا۔  میڈیا کو چاہیے تھا اس واقع کو مناسب کوریج دیتا۔ 

آسان حل تھا پولیس سے مدد لی جاتی یا ضلعی انتظامیہ سے درخواست کی جاتی معاملہ حل نہ ہوتا پھر میڈیا سے ایک حد تک مدد لی جاتی۔ مگر ڈرامہ کرنا تھا وہ ہو گیا۔ اب اس مشہور ہونے اور سلیبرٹی بننے کا جو شوق ہے اس کو ختم کرنا ہے۔ ایک باقاعدہ پالیسی بنائی جائے۔  ٹک ٹاک نے ہر گھر میں سلیبرٹی پیدا کر دیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے سلیبرٹی اپنے مداحوں کو تو ملے گا ۔ جس سے ایسے واقعات رونما ہونگے۔ بظاہر مشہور ہونا  اچھی بات ہے۔ اپنے آپ کو مشہور ترین کہنا اور سمجھنا غلط ہے۔    بہت سے لوگ اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جو شائد ٹک ٹاک کا بنیادی مقصد بھی ہو۔ مگر اس کی منفی اثرات بھی مرتب ہورہے ہیں۔ 

ہمیں اپنے آپ کو سب سے پہلے ٹھیک کرنا ہو گا۔ اس کے بعد معاشرے کی اصلاح کرنے ہے۔ ہم اس ملک کا اثاثہ ہیں اور یہ ملک ہماری پہچان ہے۔ جب اثاثہ مثبت کردار ادا کرتا ہے پہچان میں کوئی داخ نہیں لگتا۔

Post a Comment

0 Comments